غریب کا حوصلہ
ایک غریب آدمی نے ایک امیر مجرم کو پکڑ لیا مگر پھر کیا ہوا
طالب ہاشمی
دوسری صدی ہجری میں معن بن زائدہ شیبانی ایک مشہور امیر گزرا ہے۔وہ بڑا بہادر اور دریا دل آدمی تھا۔سارے عرب میں اس کی سخاوت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ایک دفعہ عباسی خلیفہ ابو جعفر اس سے سخت ناراض ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ معن بن زائدہ کو گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کیا جائے۔
معن بن زائدہ کو خلیفہ کے حکم کی خبر ملی تو وہ کسی جگہ چھپ گیا،لیکن ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ خلیفہ کے آدمی کسی نہ کسی دن اسے ڈھونڈ ضرور لیں گے۔ آخر ایک دن اس نے بھیس بدلا اور ایک اونٹ پر سوار ہو کر بغداد سے نکل کھڑا ہوا۔تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کے آدمی نے یکا یک ایک طرف سے نکل کر اس کے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اونٹ کو بیٹھا دیا۔پھر اس نے معن بن زائدہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا:” میرے ساتھ چلو۔
معن نے کہا:”بھئی تمھیں غلط فہمی ہو گئی ہے۔میرا معن بن زائدہ سے کیا تعلق ؟“
سیاہ فام آدمی نے کہا:”تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔اللہ کی قسم!میں تمھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔اس سے پہلے کہ انعام کے لالچ میں اور لوگ بھی یہاں پہنچ جائیں،میرے ساتھ چل پڑو۔“
معن نے جب دیکھا کہ وہ شخص اس کو جانتا ہے اور کسی طرح اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا تو اس نے اپنی جیب سے ہیروں کا ایک ہار نکالا اور اس کے ہاتھ میں دے کر کہا:”بھائی!اس ہار میں بڑے قیمتی ہیرے ہیں۔ان کی قیمت اس انعام سے کہیں زیادہ ہے جو خلیفہ نے میرے گرفتار کرنے والے کے لئے مقرر کیا ہے۔تم یہ ہار لے لو اور میری جان کے دشمن نہ بنو۔“
وہ شخص ہار کو کچھ دیر دیکھتا رہا ،پھر کہنے لگا:”واقعی یہ ہار بہت قیمتی ہے۔اسے لے کر تمھیں چھوڑنے کا فیصلہ میں اسی وقت کروں گا جب تم میرے ایک سوال کا جواب سچ سچ دو گے۔“
معن نے کہا:”کیا سوال ہے تمہارا؟“
اس نے کہا:”تمہاری سخاوت اور دریا دلی کی سارے عرب میں دھوم مچی ہوئی ہے۔یہ بتاؤ کہ کیا کبھی تم نے اپنی ساری دولت بھی کسی کو بخشی ہے؟“
معن :”نہیں۔“
سیاہ فام آدمی :”اچھا آدھی؟“
معن :”وہ بھی نہیں۔“
سیاہ فام آدمی:”اچھا ایک تہائی؟“
معن :” ایک تہائی بھی نہیں۔“
سیاہ فام آدمی:”اچھا دسواں حصہ؟“
معن:”ہاں،اس کا اتفاق شاید کبھی ہوا ہو۔“
اب اس شخص نے مسکرا کر کہا:”یہ تو کوئی بڑی بات نہ ہوئی۔میں امیر المومنین منصور کی سرکار میں صرف بیس درہم ماہوار پر ملازم ہوں۔یہ ہار جو تم مجھے دے رہے ہو،لاکھوں درہم قیمت کا ہے۔یہ میں تمہیں بخشتا ہوں،تاکہ تم کو معلوم ہو جائے کہ سخاوت کس چیز کا نام ہے اور تم سے بھی بڑے سخی اس دنیا میں موجود ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے ہارمعن بن زائدہ کی طرف پھینک دیا اور اونٹ کی مہار چھوڑ کر وہاں سے چل دیا۔معن نے اس کو آواز دے کر کہا:”اے جوان!جس طرح تم نے مجھے شرمندہ کیا ہے ،اس سے تو مرجانا بہتر ہے۔یہ ہار لے جاؤ میں نے خوشی سے تمہیں دیا ہے۔“
یہ سن کر خلیفہ کا وہ غریب ملازم ہنسا اور کہنے لگا:”تم چاہتے ہو کہ اپنے آپ کو مجھ سے بڑھ کر سخی ثابت کرو۔اللہ کی قسم!یہ کبھی نہ ہوگا۔یہ ہار میں نے تمہیں بخشا۔اب میرے لئے اس کو چھونا بھی حرام ہے۔“یہ کہہ کر وہ تیزی سے شہر کی جانب چلا گیا۔
معن بن زائدہ کا اپنا بیان ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنے بڑے حوصلے والا کوئی غریب آدمی نہیں دیکھا۔
دوسری صدی ہجری میں معن بن زائدہ شیبانی ایک مشہور امیر گزرا ہے۔وہ بڑا بہادر اور دریا دل آدمی تھا۔سارے عرب میں اس کی سخاوت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ایک دفعہ عباسی خلیفہ ابو جعفر اس سے سخت ناراض ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ معن بن زائدہ کو گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کیا جائے۔
معن بن زائدہ کو خلیفہ کے حکم کی خبر ملی تو وہ کسی جگہ چھپ گیا،لیکن ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ خلیفہ کے آدمی کسی نہ کسی دن اسے ڈھونڈ ضرور لیں گے۔ آخر ایک دن اس نے بھیس بدلا اور ایک اونٹ پر سوار ہو کر بغداد سے نکل کھڑا ہوا۔تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کے آدمی نے یکا یک ایک طرف سے نکل کر اس کے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اونٹ کو بیٹھا دیا۔پھر اس نے معن بن زائدہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا:” میرے ساتھ چلو۔
“
معن نے کہا:”تم ہو کون اور یہ کیا حرکت ہے؟“
اس نے کہا:”میں تو جو ہوں سو ہوں،لیکن تو ضرور معن بن زائدہ ہے،جس کی امیر المومنین کو تلاش ہے اور جس کو گرفتار کرنے والے کو امیر المومنین نے بہت بڑا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
معن نے کہا:”بھئی تمھیں غلط فہمی ہو گئی ہے۔میرا معن بن زائدہ سے کیا تعلق ؟“
سیاہ فام آدمی نے کہا:”تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔اللہ کی قسم!میں تمھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔اس سے پہلے کہ انعام کے لالچ میں اور لوگ بھی یہاں پہنچ جائیں،میرے ساتھ چل پڑو۔“
معن نے جب دیکھا کہ وہ شخص اس کو جانتا ہے اور کسی طرح اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا تو اس نے اپنی جیب سے ہیروں کا ایک ہار نکالا اور اس کے ہاتھ میں دے کر کہا:”بھائی!اس ہار میں بڑے قیمتی ہیرے ہیں۔ان کی قیمت اس انعام سے کہیں زیادہ ہے جو خلیفہ نے میرے گرفتار کرنے والے کے لئے مقرر کیا ہے۔تم یہ ہار لے لو اور میری جان کے دشمن نہ بنو۔“
وہ شخص ہار کو کچھ دیر دیکھتا رہا ،پھر کہنے لگا:”واقعی یہ ہار بہت قیمتی ہے۔اسے لے کر تمھیں چھوڑنے کا فیصلہ میں اسی وقت کروں گا جب تم میرے ایک سوال کا جواب سچ سچ دو گے۔“
معن نے کہا:”کیا سوال ہے تمہارا؟“
اس نے کہا:”تمہاری سخاوت اور دریا دلی کی سارے عرب میں دھوم مچی ہوئی ہے۔یہ بتاؤ کہ کیا کبھی تم نے اپنی ساری دولت بھی کسی کو بخشی ہے؟“
معن :”نہیں۔“
سیاہ فام آدمی :”اچھا آدھی؟“
معن :”وہ بھی نہیں۔“
سیاہ فام آدمی:”اچھا ایک تہائی؟“
معن :” ایک تہائی بھی نہیں۔“
سیاہ فام آدمی:”اچھا دسواں حصہ؟“
معن:”ہاں،اس کا اتفاق شاید کبھی ہوا ہو۔“
اب اس شخص نے مسکرا کر کہا:”یہ تو کوئی بڑی بات نہ ہوئی۔میں امیر المومنین منصور کی سرکار میں صرف بیس درہم ماہوار پر ملازم ہوں۔یہ ہار جو تم مجھے دے رہے ہو،لاکھوں درہم قیمت کا ہے۔یہ میں تمہیں بخشتا ہوں،تاکہ تم کو معلوم ہو جائے کہ سخاوت کس چیز کا نام ہے اور تم سے بھی بڑے سخی اس دنیا میں موجود ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے ہارمعن بن زائدہ کی طرف پھینک دیا اور اونٹ کی مہار چھوڑ کر وہاں سے چل دیا۔معن نے اس کو آواز دے کر کہا:”اے جوان!جس طرح تم نے مجھے شرمندہ کیا ہے ،اس سے تو مرجانا بہتر ہے۔یہ ہار لے جاؤ میں نے خوشی سے تمہیں دیا ہے۔“
یہ سن کر خلیفہ کا وہ غریب ملازم ہنسا اور کہنے لگا:”تم چاہتے ہو کہ اپنے آپ کو مجھ سے بڑھ کر سخی ثابت کرو۔اللہ کی قسم!یہ کبھی نہ ہوگا۔یہ ہار میں نے تمہیں بخشا۔اب میرے لئے اس کو چھونا بھی حرام ہے۔“یہ کہہ کر وہ تیزی سے شہر کی جانب چلا گیا۔
معن بن زائدہ کا اپنا بیان ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنے بڑے حوصلے والا کوئی غریب آدمی نہیں دیکھا۔
0 Comments